blog

دعوت اسلامی کی اہمیت و ضرورت

  • Date:

    Aug 25 2022
  • Writer by:

    Social Media Dawat-e-Islami
  • Category:

    Events

یہ ایک realityہےکہ ’’گندگی جتنی بڑھتی ہے صفائی کی ضرورت و اہمیت بھی اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔‘‘ کیونکہ اگر وقت پر صفائی ستھرائی کا اہتمام نہ کیا جائے تو بدبو پھیلتی ,جراثیم پیدا ہوتے ہیں اور نتیجتاً لوگ طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ یقیناً دیگر گندگیوں کی طرح گناہ, بَداَعمالیاں, بےحیائی اور بُرائیاں بھی ایسی گندگیاں ہیں جو sometime مسلمان کو مَعاذَ اللہ سب سے بڑی گندگی یعنی کُفر تک پہنچانے کا ذریعہ بنتی ہیں۔ انبیائے کرام علیہمُ السّلام کی تشریف آوری کے مَقاصِد میں سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہ لوگوں کو ظاہری اور باطنی گندگیوں سے پاک صاف کرکے اللہ ربُّ العالَمین کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے قابل بنائیں , قراٰنِ کریم کے پارہ 28 سُورۃُ الجُمُعہ کی آیت نمبر 2 میں ہمارے پیارے اور آخری نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وَصف ’’یُزَكِّیْهِمْ‘‘ کہہ کر بیان فرمایا گیا کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ’’انہیں(یعنی ان نئے مسلمان ہونے والوں کو) باطل عقیدوں ,مذموم اَخلاق , دورِ جاہلیّت کی خباثتوں اور قبیح اَعمال سے پاک کرتے ہیں۔‘‘(صراط الجنان،10/141)

انبیائے کرام علیہمُ السّلام اور حضورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد تزکیۂ عالَم آسان الفاظ میں نیکی کی دعوت اور برائی سے منع کرنے کا یہ فریضہ اُمتِ محمدیہ کے سپرد ہوا چونکہ زمانہ جتنانبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانۂ خیر سے دُور ہوتا چلا گیا بُرائیاں اور خرابیاں اُتنی ہی بڑھتی چلی گئیں، یہی وجہ ہے کہ قُرُونِ ثَلاثَہ یعنی first three ages of Islamکے بعد ہر دَور میں اسلامی احکام کی تبلیغ کے ذریعے لوگوں کے ظاہر و باطن کو ستھرا کرنے کی ضرورت زیادہ سے زیادہ ہوتی چلی گئی اور پھر ایک وقت آیا کہ قراٰن و سنّت کے متعلق مسلمانوں کے عظیم اور پاکیزہ نظریات کو مسلسل کھوکھلا کرنے کی کوشش کی جانے لگی, ارکانِ اِسلام یعنی نماز,روزہ، حج اور زکوٰۃ کے متعلق مسلمانوں کو طرح طرح کے وسوسوں کا شکار کیا جانے لگا, دینی تعلیم کو مَعاذَ اللہ دَقْیانُوسِی خیالات قرار دیا جانے لگا۔ داڑھی اور مَذہَبِی وَضْع قَطع کواِنتِہا پسندی یعنی extremism کی نشانی سمجھا جانے لگا۔ جھوٹ,غیبت, چغلی, حَسَد, تکبّر, وعدہ خلافی,گالی گلوچ, فلمیں ڈرامے, گانے باجے وغیرہ ایک وَبا کی طرح مسلمانوں میں پھیلنے لگے,کچھ اسی طرح کی گندی سوچوں,گندے نظریاتاور گندے کاموں کے سیلاب کے آگے بَند باندھنے, ان گندگیوں کوختم کرنے, انہیں مِٹانے اور اللہ پاک کا کلمہ بلند کرنے,دینِ اسلام کا بول بالا کرنے, لوگوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح بزرگان دین علمائے کرام ائمہ اسلام نے بھر پور کوششیں کیں الحمدللہ الکریم انہی کوششوں کی ایک لڑی 2 ستمبر 1981ء کے دن معرض وجود میں آئی۔

نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نظرِ کرم اور اولیائے کرام و علمائے اسلام کے فیضان سے وطنِ عزیز پاکستان کے شہر کراچی میں امیرِ اہلِ سنّت بانی دعوت اسلامی حضرت علّا مہ محمد الیاس عطار قادری دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے ایک دینی تحریک دعوتِ اسلامی کا آغاز فرمایا۔ کراچی کے ایک چھوٹے سے علاقے سے اٹھنے والی اس تحریک دعوتِ اسلامی کی چَھتری کے نیچے انفرادی اور اجتماعی اصلاح,تبلیغ, نیکی کی دعوت اور بُرائی سے منع کرنے کے کام کو ایک مُنَظّم انداز میں شروع کیا گیا,وقت و حالات کے تقاضوں پر اس میں مزید تبدیلی و بہتری آتی چلی گئی۔ قراٰن و سنّت کی تعلیمات کا نور کہ جسے علمائے حَق اہلِ سنّت پہلے بھی پھیلا رہے تھے مزید پھیلنےلگا، سنتِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دیوانے جوق در جوق گروہ در گروہ بڑھنے لگے، نوجوان اور بوڑھے سب ہی شریعت کا پاکیزہ علم سیکھنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے 41 سال کا عرصہ گزر گیا اور اَلحمدُ لِلّٰہ اس عرصہ میں دعوتِ اسلامی دنیا بھر میں دینی کاموں کا تقریباً 80 مجالس و شعبہ جات پر مشتمل نیٹ ورک پھیلانے میں کامیاب ہوئی۔

مگر چونکہ ہر دَور میں ہی انسان کا اَزْلِی دشمن شیطان, انسانوں کو مختلف طریقوں سے بہکاتا پُھسلاتا رہا, اب بھی بہکا رہا اور آئندہ بھی بہکاتا رہے گا, فِرعَونِیَت, یزیدِیَت اور شیطَنَت نے ہر دَور میں ہی لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیا مگر دورِ رواں میں تو بُرائیوں اور بَداَعمالیوں کے علاوہ عقائد و نظریات پر پے در پے حملے,ہم جنس پرستی, اِلحاد و بے دینی اور نجانے کیسے کیسے فتنے بڑھتے اور پھیلتے جارہے ہیں۔یہ وہ حالات ہیں کہ دعوتِ اسلامی کی گذشتہ کل سے کہیں زیادہ آج ضرورت ہے۔ انفرادی اور اجتماعی اصلاح,تبلیغ, نیکی کی دعوت اور بُرائی سے منع کرنے کی جتنی زیادہ ضرورت ماضی میں تھی, آج اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ کیونکہ بُرائی اور بے حیائی کی گندگی بڑھتی ہی جارہی ہے, آئے دن نِت نئے فتنے رُونما ہو رہے ہیں۔

ایک لمحے کو ذرا معاشرے پر نظر دوڑائیے کہ کیا گناہوں کی گندگی کو صاف کرنے,نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کے اہم کام میں اب غفلت اور سُستی نہیں برتی جارہی؟ کیا اب نیکی کو بُرائی اور بُرائی کو نیکی نہیں سمجھا جا رہا؟ بلکہ کیا اس سے بَدتر حالات نہیں ہوچکے کہ بُرائی کی طرف بلانے بلکہ منظم طریقے سے بُرائی کو پَروان چڑھانے, کروڑوں اَربوں روپے خرچ کرکے بُرائی اور بےحیائی کی گندگی کو پھیلانے والے لوگ ہمارے معاشرے میں نہیں پائے جا رہے؟ اور کیا کئی گھروں, دفتروں, کمپنیوں, اداروں,فیکٹریوں,نجی فنکشنز اور سوشل گروپوں وغیرہ میں نیکی سے نہیں روکا جا رہا؟ ان میں بُرائی کی ترغیب نہیں دی جا رہی؟ ایسے حالات میں دعوتِ اسلامی کی اہمیت و ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھی ہے یا نہیں؟ اس کا جواب شریعت و سنّت کا دَرد رکھنے اور زندہ ضمیر رکھنے والا ہرشخص اپنے دل سے لے سکتا ہے۔ یقینا اب دعوت اسلامی کی اہمیت و ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے ، آئیے خود بھی اس دینی تحریک میں عملاً شامل ہوجائیے ۔اللہ پاک ہمیں دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول سے جُڑ کر پہلے خود اپنی اصلاح کرنے اور پھر اس پیاری تحریک کا دَسْت و بازُو بَن کر نیکی کی دعوت دینے اور بُرائی سے منع کرنے کے اہم کام کو مزید آگے بڑھانے کی توفیق عطافرمائے۔ اٰمِیْن

Share this post:

(0) comments

leave a comment