blog

مکۂ مکرمہ کیسے آباد ہوا؟

  • Date:

    Jul 05 2022
  • Writer by:

    Social Media Dawat-e-Islami
  • Category:

    Events

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام سرزمینِ شام میں پیدا ہوئے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی Wife حضرت سارہ کی کوئی اولاد نہ تھی۔ان کے دل میں اس بات کا غم پیدا ہوا اور انہوں نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا اور ان کے بیٹے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو میرے پاس سے جدا کر کے کہیں دور کردیجئے۔ ان ہی دنوں آپ پر وحی نازل ہوئی کہ آپ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو اُس زمین میں چھوڑ آئیں جہاں بے آب و گیاہ میدان اور خشک پہاڑیوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ چنانچہ آپ علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر سفر فرمایا۔ اور اُس جگہ آئے جہاں کعبۂ معظمہ ہے۔ یہاں اس وقت نہ کوئی آبادی تھی نہ کوئی چشمہ ،نہ دور دور تک پانی یا آدمی کا کوئی نام و نشان تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک توشہ دان میں کچھ کھجوریں اور ایک مشک میں پانی رکھ کر وہاں سے روانہ ہو گئے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا نے فریاد کی کہ: اے اللہ پاک کے نبی! اس سنسان بیابان میں، جہاں نہ کوئی مونس ہے نہ غم خوار، آپ ہمیں بے یارومددگار چھوڑ کر کہاں جا رہے ہیں؟ کئی بار حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا نے آپ کو پکارا مگر آپ نے کوئی جواب نہ دیا۔ آخر میں حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھانے سوال کیا کہ آپ اتنا فرما دیجئے کہ آپ نے اپنی مرضی سے ہمیں یہاں لا کر چھوڑا ہے یا خدا کے حکم سے آپ نے ایسا کیا ہے؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ :اے ہاجرہ ! میں نے جو کچھ کیا ہے وہ اللہ پاک کے حکم سے کیا ہے۔ یہ سن کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا نے کہا کہ: اب آپ جایئے، مجھے پورا پورا اطمینان اور یقین کامل ہے کہ خدا کریم مجھ کو اور میرے بچے کو ضائع نہیں فرمائے گا۔

اس کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ایک لمبی دعا مانگی اور وہاں سے ملکِ شام چلے آئے۔ چند دنوں میں کھجوریں اور پانی ختم ہوجانے پر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا پر بھوک اور پیاس کا غلبہ ہوا اور ان کے سینے میں دودھ خشک ہوگیا اور ننھے اسمعیل علیہ السلام بھوک و پیاس سے تڑپنے لگے۔ حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا نے پانی کی تلاش میں صفا مروہ کی دونوں پہاڑیوں کے سات چکر لگائے مگر پانی کا کوئی سراغ دور دور تک نہیں ملا۔ یہاں تک کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام پیاس کی شدت سے ایڑیاں پٹک پٹک کر رو رہے تھے۔ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے آپ کی ایڑیوں کے پاس زمین پر اپنا پیر مار کر ایک چشمہ جاری کردیا۔ اور اس پانی میں دودھ کی خاصیت تھی کہ یہ غذا اور پانی دونوں کا کام کرتا تھا۔ چنانچہ یہی زمزم کا پانی پی پی کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا اور حضرت اسمٰعیل علیہ السلام زندہ رہے۔ یہاں تک کہ حضرت اسمٰعیل علیہ السلام جوان ہو گئے اور شکار کرنے لگے تو شکار کے گوشت اور زمزم کے پانی پر گزر بسر ہونے لگا۔ پھر قبیلہ جر ہم کے کچھ لوگ اپنی بکریوں کو چراتے ہوئے اس میدان میں آئے اور پانی کا چشمہ دیکھ کر حضرت ہاجرہ رضی اللہ عنھا کی اجازت سے یہاں آباد ہو گئے اور اس قبیلہ کی ایک لڑکی سے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی شادی بھی ہو گئی۔ اور آہستہ آہستہ یہاں ایک آبادی ہو گئی۔ پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خداوند قدوس کا یہ حکم ہوا کہ خانۂ کعبہ کی تعمیر کریں۔ چنانچہ آپ نے حضرت اسمٰعیل علیہ السلام کی مدد سے خانۂ کعبہ کو تعمیر فرمایا۔ اس وقت آپ علیہ السلام نے اپنی اولاد اور مکہ ٔمکرمہ کے رہنے والوں کے لئے جو ایک طویل دعا مانگی۔ وہ قرآن مجید میں بھی موجود ہے۔

رَبَّنَاۤ اِنِّیۡۤ اَسْکَنۡتُ مِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ بِوَادٍ غَیۡرِ ذِیۡ زَرْعٍ عِنۡدَ بَیۡتِکَ الْمُحَرَّمِ ۙ رَبَّنَا لِیُـقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ فَاجْعَلْ اَفْئِدَۃً مِّنَ النَّاسِ تَہۡوِیۡۤ اِلَیۡہِمْ وَارْزُقْہُمۡ مِّنَ الثَّمَرٰتِ لَعَلَّہُمْ یَشْکُرُوۡنَ ﴿37﴾

ترجمہ ٔکنزالایمان:۔اے میرے رب میں نے اپنی کچھ اولاد ایک نالے میں بسائی جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیرے حرمت والے گھر کے پاس اے ہمارے رب اس لئے کہ وہ نماز قائم رکھیں تو تو لوگوں کے کچھ دل ان کی طرف مائل کردے اور انہیں کچھ پھل کھانے کو دے شاید وہ احسان مانیں۔ (پ13،ابراہیم:37)

یہ مکۂ مکرمہ کی آبادی کی ابتدائی تاریخ ہے جو قرآن مجید سے ثابت ہے۔

دعائے ابراہیمی کا اثریہ ہوا کہ اس دعا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ پاک سے دو چیزیں طلب کیں ۔ایک تو یہ کہ کچھ لوگوں کے دل اولاد ابراہیم علیہ السلام کی طرف مائل ہوں اور دوسری ان لوگوں کو پھلوں کی روزی کھانے کو ملے۔ سبحان اللہ ، آپ کی یہ دعائیں مقبول ہوئیں۔ چنانچہ لوگوں کے دل اس طرح اہل مکہ کی طرف مائل ہوئے کہ آج کروڑہا کروڑ انسان مکۂ مکرمہ کی زیارت کے لئے تڑپ رہے ہیں اور ہر دور میں طرح طرح کی تکلیفیں اٹھا کر مسلمان خشکی ، سمندر اور ہوائی راستوں سے مکۂ مکرمہ جاتے رہے۔ اور قیامت تک جاتے رہیں گے اور اہل مکہ کی روزی میں پھلوں کی کثرت کا یہ عالم ہے کہ باوجودیہ کہ شہر مکہ اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں کہیں نہ کوئی کھیتی ہے نہ کوئی باغ باغیچہ ہے۔ مگر مکۂ مکرمہ کی منڈیوں اور بازاروں میں کثرت سے قسم قسم کے میوے اور پھل ملتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ''طائف'' کی زمین میں ہر قسم کے پھلوں کی پیداوار کی صلاحیت پیدا فرما دی ہے کہ وہاں سے قسم قسم کے میوے ، پھل اور طرح طرح کی سبزیاں اور ترکاریاں مکہ معظمہ میں آتی رہتی ہیں اور اس کے علاوہ مصر اور عراق بلکہ یورپ کے ممالک سے میوے اور پھل بکثرت مکہ مکرمہ آیا کرتے ہیں۔ یہ سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا کی برکتوں کے اثرات و ثمرات ہیں جو بلاشبہ دنیا کے عجائبات میں سے ہیں۔

Share this post:

(0) comments

leave a comment