blog

رسول اللہ ﷺ کا اسوہ مثالی بھی ہے ، کامل بھی

  • Date:

    Apr 13 2023
  • Writer by:

    Social Media of Dawat-e-Islami
  • Category:

    Islam

انسانی معاشرے ہمیشہ تعلیم و تربیت اور اخلاق حسنہ سے عروج اور استحکام حاصل کرتے ہیں۔ معاشرہ کے امن، خوشحالی اور استحکام کا راز علم، عمل اور اخلاق میں پوشیدہ ہے۔ اسی طرح قیادتیں بھی علم، عمل اور اخلاق حسنہ سے تشکیل پاتیں اور ظہور پذیر ہوتی ہیں۔ اخلاق حسنہ کی اہمیت کے پیش نظر ہی اللہ رب العزت نے اپنے محبوب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق عظیم کے اعلیٰ درجہ پر فائز کیا۔ ارشاد فرمایا:

(آسان ترجمہ قرآن کنزالعرفان)

بیشک تمہارے لئےاللہ کے رسول میں بہترین نمونہ موجود ہے

تفسیر صراط الجنان :

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ سیّد المرسَلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں پیروی کیلئے بہترین طریقہ موجود ہے جس کا حق یہ ہے کہ اس کی اقتدا اور پیروی کی جائے،جیسے غزوہِ خندق کے موقع پر جن سنگین حالات کا سامنا تھا کہ کفارِ عرب اپنی بھرپور افرادی اور حَربی قوت کے ساتھ مدینہ منورہ پر حملہ کرنے کے لئے اچانک نکل پڑے تھے اور ان کے حملے کو پَسپا کرنے کے لئے جس تیاری کی ضرورت تھی اس کے لئے مسلمانوں کے پاس وقت بہت کم تھا اور افرادی قوت بھی اس کے مطابق نہ تھی،خوارک کی اتنی قلت ہو گئی کہ کئی کئی دن فاقہ کرنا پڑتا تھا،پھر عین وقت پر مدینہ منورہ کے یہودیوں نے دوستی کا معاہدہ توڑ دیا اور ان کی غداری کی وجہ سے حالات مزید سنگین ہو گئے، ایسے ہو شْرُبا حالات میں تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کیسی شاندار سیرت پیش فرمائی کہ قدم قدم پر اپنے جانثار صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ ساتھ موجود ہیں ، جب خندق کھودنے کا موقع آیا تو اس کی کھدائی میں خود بھی شرکت فرمائی، چٹانوں کو توڑااور مٹی کو اٹھا اٹھا کر باہر پھینکا، جب خوراک کی قلت ہوئی تودوسرے مجاہدین کی طرح خود بھی فاقہ کشی برداشت فرمائی اور اس دوران اگر صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم نے فاقے کی تکلیف سے پیٹ پر ایک پتھر باندھا تو سیّد العالَمین صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک شکم پر دو پتھر بندھے ہوئے نظر آئے۔ شدید سردی کے باوجود ہفتوں صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ میدانِ جنگ میں قیام فرمایا۔جب دشمن حملہ آور ہوا تو اس کے لشکر کی تعداد اور حربی طاقت کو دیکھ کر پریشان نہیں ہوئے بلکہ عزم و ہمت کا پیکر بنے رہے اور صحابہ ٔکرام رضی اللہ عنہم کی حوصلہ افزائی فرماتے رہے۔ جب بنو قریظہ کے بارے میں خبر ملی کہ انہوں نے عہد توڑ دیا ہے تو اسے سن کر مُقَدّس جَبین پر بل نہیں پڑے اورمنافق لوگ مختلف حیلوں کے ذریعے میدانِ جنگ سے راہِ فرار اختیار کرنے لگے تب بھی پریشان نہ ہوئے اور اِستقامت کے ساتھ ان تمام حالات کا مقابلہ فرماتے رہے، جنگ میں ثابت قدمی اور شجاعت دکھائی، اس میں آنے والی سختیوں کا صبر وہمت سے مقابلہ کیا، اللہ تعالیٰ کے دین کی مدد کے لئے کوئی کسر نہ چھوڑی اور آخر کار اللہ تعالیٰ کی مدد سے کفار کے لشکروں کو شکست دی۔ان تمام چیزوں کے پیش ِنظر مسلمانوں کو فرمایا گیا کہ اے مسلمانو!تمہیں چاہئے کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کی پیروی کرو اور علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم محاسنِ اَخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حِلم و عَفْو،رحم و کرم، عدل و انصاف، جود و سخا، ایثار و قربانی، مہمان نوازی، عدمِ تشدُّد، شجاعت، ایفائے عہد، حسنِ معاملہ، صبروقناعت، نرم گفتاری، خوش روئی، ملنساری، مساوات، غمخواری، سادگی و بے تکلُّفی، تواضع واِنکساری اور حیاداری کی اتنی بلند منزلوں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نے ایک جملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ’’ کَانَ خُلُقُہُ الْقُرْآنَ ‘‘ یعنی تعلیماتِ قرآن پر پورا پورا عمل یہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اَخلاق تھے۔( سیرتِ مصطفٰی، ص۶۰۰)

حضور پُر نور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی ہر ایک کے لئے کامل نمونہ ہے: یاد رہے کہ عبادات، معاملات، اَخلاقیات، سختیوں اور مشقتوں پر صبر کرنے میں اورنعمتوں پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے میں ، الغرض زندگی کے ہر شعبہ میں اور ہر پہلو کے اعتبار سے تاجدارِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی اور سیرت میں ایک کامل نمونہ موجود ہے، لہٰذا ہر ایک کو اور بطورِ خاص مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اَقوال میں ،اَفعال میں ، اَخلاق میں اور اپنے دیگر احوال میں سیّد المرسَلین صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہوں اور اپنی زندگی کے تمام معمولات میں سیّد العالَمین صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کریں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’شانِ حبیب الرحمٰن ‘‘ میں اس آیت پر بہت پیارا کلام فرمایا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکارِ اَبد قرار صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک ذات ہر درجے اور ہر مرتبے کے انسان کے لئے نمونہ ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے توکُّل کا حال یہ تھا کہ دو دوماہ تک گھر میں آگ نہیں جلتی، صرف کھجوروں اور پانی پر گزارہ ہوتا، توامت کے مَساکین کو چاہئے کہ ان مبارک حالات کو دیکھیں اور صبر سے کام لیں ،جو سلطنت اور بادشاہت کی زندگی گزار رہا ہے، تو وہ ان حالات کا ملاحظہ کرے کہ مکہ مکرمہ فتح ہو گیا، تمام وہ کفار سامنے حاضر ہیں جنہوں نے بے انتہا تکلیفیں پہنچائی تھیں ، آج موقع تھا کہ ان تمام گستاخوں سے بدلہ لیا جائے مگر ہوا یہ کہ فتح فرماتے ہی عام معافی کا اعلان فرما دیا کہ جو ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے اس کو امن ہے،جو اپنا دروازہ بند کرلے اس کو امن ہے، جو ہتھیار ڈال دے اس کو امن ہے مگر حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے 13 سال تک اپنے اوپر اہلِ مکہ کی سختیاں برداشت کیں ، صحابہ ٔکرام، اہلِ بیت ِعظام،ان کے گھر والے اور ان حضرات کی جان و مال، عزت وآبرو سب ہی خطرے میں رہے اورآخر کار دیس کو چھوڑ کر پردیسی ہونا پڑا، مگر جب اپنا موقع آیا تو سب کو معاف فرما دیا،لہٰذا قیامت تک کے سَلاطین اس کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں۔

Share this post:

(0) comments

leave a comment