blog

سیلاب دوبارہ نہ آئے

  • Date:

    Oct 27 2022
  • Writer by:

    Social Media Dawat-e-Islami
  • Category:

    Events

زندگی میں سمجھدار اور دوراندیش لوگ ہی ممکنہ قدرتی آفات سے بہتر اور احسن انداز میں نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کسی بھی ذمہ دار اور سمجھدار شخص کے لیے یہ ضروری ہے کہ سیلاب آنے سے قبل ہی اس سے نمٹنے کے لیے حفاظتی اقدامات اٹھائے جائیں۔ماہرین ماحولیات سے پوچھیے، وہ آپ کو بتائیں گے کہ کسی بھی ملک کے ماحول اور معیشت کیلئے اس کے 25فیصد رقبے پر جنگلات ضرورت ہیں لیکن میرے وطن عزیز پاکستان میں اس وقت جنگلات محض 3فیصد رہ گئے ہیں۔ یہ جنگلات بارشوں کے قدرتی نظام کو بھی بہت حد تک برقرار رکھتے ہیں اور پھر بارش کے پانی کو زمین میں جذب رکھ کر سیلاب کی کیفیت پیدا ہونے سے روکتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے ڈیموں کی مدت استعمال بھی بڑھتی ہے کیونکہ ڈیموں کو بھرنے والی مٹی اور ریت کو یہ پکڑ کر رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں پہاڑی علاقوں میں اور دیگر میدانی علاقوں میں بچے کھچے معمولی سے جنگلات کا جس تیزی سے قتل ہو رہا ہے، اس کی طرف توجہ کی بہت زیادہ حاجت ہے ۔ محکمہ جنگلات کا کام جنگلات کی حفاظت اور بڑھوتری ہے لیکن بڑی معذرت کے ساتھ کچھ حضرات یہ الٹا جنگل سمگلرز کے ساتھ مل کر اس سبز سونے کی دن رات لوٹ مار میں مصروف ہیں، دوسری طرف بارش کے پانی کو سنبھالنے کیلئے جن ڈیموں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ہمارے ہاں بہت کم تعداد میں ہیں۔ ہماری قوم کو قیام پاکستان سے لے کر آج تک کالا باغ ڈیم میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اس کی وجہ سے دوسرا کوئی ڈیم بھی نہیں بنا۔ پانی ذخیرہ کرنے اور بارش کے پانی کو روکنے کا سرے سے کوئی انتظام ہی نہیں تو لامحالہ یہ پانی سوائے تباہی کے ہمیں اور کیا دے سکتا ہے۔ اگر ہم دیگر ممالک کی طرح ڈیم بنا کر بارشوں کے پانی کو سٹور کرنے کا کچھ انتظام کر لیں تو سیلابوں کا معاملہ کافی حد تک سنبھالا جا سکتا ہے۔

اس کے ساتھ ایک اہم ترین معاملہ پانیوں کے بہاؤ کے قدرتی راستوں کا سرے سے ختم ہوجانا ہے۔ دریاؤں کے پاٹ جو کسی زمانے میں کئی کئی کلومیٹر چوڑے ہوتے تھے اب ندی نالوں کی شکل اختیار کر چکے ہیں ان کو دوبارہ اسی شکل میں بنایا جائے، جن لوگوں نے دریاؤں کے پاٹوں اور زمینوں پر ناجائز قبضے جما لئے ہیں ،ان سے یہ جگہیں واپس لی جائیں۔ ایک اور بڑی وجہ گلیشیئرز کا پگھلنا ہے۔ گلیشیئرز ہمارے شمالی علاقہ جات میں تازہ پانی کے ذخائر ہیں جو برف کی صورت میں پڑے ہوئے ہیں۔ اب جیسا کہ ہماری زمین کا درجۂ حرارت بڑھتا جا رہا ہے تو ان گلیشیئرز نے بھی پگھلنا شروع کر دیا ہے جن کے حالیہ نتائج ہم دیکھ رہے ہیں ماحولیاتی ماہرین کے مطابق 2050ء تک پاکستان میں جتنے بھی گلیشیئرز ہیں، وہ سب پگھل جائیں گے۔ اب یہیں سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اُس وقت سیلاب کی کیا صورتحال ہو گی اور اُس وقت کیلئے ہم نے کیا تیاری کی ہے۔

بارشوں کے پانی کے بہاؤ کا جب کوئی راستہ ہی نہیں تو لامحالہ وہ آبادیوں ہی کو تاراج کرے گا۔ پاکستان بننے سے پہلے کے دور کے نقشے اٹھا کر دیکھ لیں، آپ کو وہاں مون سون کے موسم میں بارشوں کے پانی کے بہاؤ کیلئے الگ سے ”فلڈ چینلز” کی اصطلاح ملے گی۔زمینوں کی تقسیم میں انہیں الگ سے وسیع جگہ دی گئی لیکن اب عملی طور پر زمین پر دیکھیں تو کوئی ایک فلڈ چینل بھی نہیں ملے گا۔ پانی کی تمام قدرتی گزرگاہوں پر ہمارے اپنے ہی مہربانوں نے فیکٹریاں، وسیع ہائوسنگ کالونیاں اور کاروباری ادارے تعمیر کر لئے ہیں اور اگر کوئی جگہ بچی تو وہاں کھیت کھلیان آباد کر لئے گئے۔ پھر جب پانی کوئی راستہ نہ پا کر ہماری آبادیوں کو روندنا شروع کرتا ہے تو ہم رونا دھونا شروع کر دیتے ہیں کہ سیلاب نے تباہی مچا دی، ملک کا ستیاناس کر دیا، ہم لٹ گئے، مٹ گئے، مر گئے۔

لیکن اس سارے عمل میں اس حوالے سے وجوہات کی طرف کوئی نظر التفات بھی ڈالنے کی کوشش نہیں کرتا۔ دریاؤں اور نہروں کے نظام کو بہتر بنانا چاہیے۔ نئی نہریں بنا کر دریاؤں اور سمندر تک پہنچائی جائیں تاکہ اضافی پانی کو ان کے ذریعے سنبھالا جائے۔زیادہ سے زیادہ معافیاں اور بھلائیاں بھی طلب کرنی چاہئیں، کیونکہ بارشوں کو برسانے، فصلوں کو لہلوانے، بستیوں کو چمکانے والا وہی اللہ رب العزت ہے۔ اگر ہمیں ہر لمحہ ہر وقت اس کی مدد و تائید حاصل ہو تو کوئی بارش ہمارا کوئی نقصان نہیں کر سکے گی۔ سیلاب سے نمٹنے، امداد و بحالی، تمام صلاحیتیں صرف کرنے کی تو باتیں کرتے ہیں لیکن کبھی یہ سننے کو نہیں ملتا کہ اصل فیصلے کرنے والی ذات اللہ رب العزت کے ساتھ اپنا رابطہ اور تعلق مضبوط کیا جائے۔اللہ پاک کے آخری نبی حضرت محمد مصطفی ﷺنے بارشوں ، اس کی آفات اور مصیبتوں سے نجات کیلئے جو تعلیمات دیں، ان پر بھی عمل پیرا ہوا جائے، اس حوالے سے دعائیں اور معافیاں مانگی جائیں، اللہ کی نافرمانی ترک کر کے اس وطن عزیز پاکستان کو اللہ کی اطاعت میں لایا جائے۔

Share this post:

(0) comments

leave a comment