blog

عشرہ ذو الحجہ کے فضائل

  • Date:

    Jul 19 2021
  • Writer by:

    Social Media Dawat-e-Islami
  • Category:

    Islamic Month

عشرہ ذو الحجہ کے فضائل

ہجری سال کا آخری مہینہ ماہ ذو الحجۃ الحرام زمانہ جاہلیت میں بھی حرمت والے مہینوں میں شمار کیا جاتا تھا اور زمانہ اسلام میں تو اس کی حرمت میں مزید اضافہ ہوگیا بالخصوص اس کا ابتدائی عشرہ قرآن و حدیث میں بہت زیادہ فضیلت و اہمیت کا حامل قرار دیا گیا۔

قرآن مجید میں رب تعالی کا ارشاد ہے :

وَ الْفَجْرِۙ(۱) وَ لَیَالٍ عَشْرٍۙ(۲)

ترجمۂکنزالایمان: اس صبح کی قسم۔اور دس راتوں کی۔ 30، الفجر: 1، 2)

نبی کریم ﷺ کے چچا زاد بھائی مفسر قرآن حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ان (دس راتوں کی قسم ) سے مراد ذو الحجہ کی پہلی دس راتیں ہیں۔ اللہ پاک نے ان راتوں کی قسم ارشاد فرما کر یہ ظاہر کر دیا کہ یہ راتیں اللہ پاک کے نزدیک عظمت والی ہیں۔ (اسلامی مہینوں کے فضائل، ص 259)

قرآن پاک کے ساتھ ساتھ کئی احادیث میں بھی ذو الحجۃ الحرام کے ابتدائی عشرے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

مسند احمد کی حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ کریم کے نزدیک کوئی دن عشرہ ذو الحجۃ الحرام کے ایّام سے نہ زیادہ عظیم ہے اور نہ ان دونوں سے بڑھ کر کسی دن کا نیک عمل اسے محبوب ہے لہذا ان دنوں میں تَہْلِیْل (لا الہ الا اللہ)، تکبیر (اللہ اکبر) اور تَحْمِیْد (الحمد للہ) کی کثرت کرو۔ (مسند احمد، حدیث: 5447)

اسی طرح دیگر احادیث میں بھی ان دس دنوں کی بہت سی فضیلتیں بیان کی گئی ہیں یہاں تک کہ ان دس دنوں میں کیے گئے اعمال اللہ پاک کو سب سے زیادہ محبوب ہیں اور حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت کے مطابق تو عشرہ ذو الحجہ میں ایک عمل کا ثواب 700 گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔

اس مبارک عشرے کی فضیلتوں کو پانے کے لیے ہمیں اس میں خوب خوب عبادت کرنی چاہیے نیز ثواب کی نیت سے روزے بھی رکھنے چاہیے۔ہمارے پیارے آقا ﷺ اور ان کی سنتوں پر قربان ہونے والے ہمارے اصحاب و اسلاف کا بھی یہی طریقہ کار تھا۔

نبی کریمﷺ عشرہ ذو الحجہ کے روزے نہیں چھوڑا کرتے تھے اور 9 روزے پابندی کے ساتھ رکھتے تھے۔ (سنن نسائی، حدیث: 2413,14)

بخاری شریف کی روایت کے مطابق حضرت عبد اللہ بن عمر اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم عشرہ ذو الحجہ میں بازار جا کر تکبیرات کہتے تو لوگ بھی ان کے ساتھ تکبیر کہتے اور یہ دونوں حضرات صرف تکبیرات کہنے کے لئے بازار جاتے تھے۔ (بخاری، 333/1)

حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ آپ عشرہ ذو الحجہ میں نفل نمازوں کے بعد بھی تکبیر پڑھنے کا اہتمام فرماتے۔(بخاری، 333/1)

اور حضرت سعید بن جُبَیْر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ذو الحجہ کی پہلی 10 راتوں میں اپنے چراغ نہ بجھایا کرو (یعنی رات میں عبادت کیا کرو)۔ (حلیۃ الاولیاء، سعید بن جبیر، 311/4، رقم: 5671)

قارئین کرام ! یوں تو یہ مکمل عشرہ ہی رحمتوں اور برکتوں والا ہے لیکن اس عشرے میں ایک دن ایسا ہے جو بہت زیادہ خاص ہے اور اس عشرے کے دیگر دنوں کی نسبت ممتاز بھی ہے نیز اس کے فضیلت و اہمیت کے بارے میں الگ سے احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اور وہ ہے یومِ عرفہ یعنی  9 ذو الحجۃ الحرام کا دن۔

حدیث پاک کے مطابق جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہوتا ہے عرفہ کے دن وہ بخش دیا جاتا ہے (فضل عشر ذی الحجۃ لابن ابی الدنیا، حدیث: 14) پھر شیطان جب بڑے بڑے گنہگاروں کی بخشش ہوتے دیکھتا ہے تو وہ اپنی نظروں میں ذلیل و خوار ہوجاتا ہے (مؤطا امام مالک، حدیث: 982) اور تو اور یوم عرفہ کی رات وہ رات ہے کہ جو شخص اس میں عبادت کرے اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ (الترغیب والترھیب ، حدیث: 1662)نیز نبی کریم ﷺ عرفہ کے روزے کو ایک ہزار دن کے برابر شمار کرتے تھے۔ (مجمع الزوائد، حدیث: 5143)

حضرت سیدنا فرقد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ہر رات آسمان کے دروازے 3 مرتبہ کھولے جاتے ہیں اور جمعہ کی رات 7 مرتبہ کھولے جاتے ہیں جبکہ عرفہ کی رات 9 مرتبہ کھولے جاتے ہیں۔

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک مرتبہ یہ آیت پڑھی:

( اَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیۡنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَیۡکُمْ نِعْمَتِیۡ وَرَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسْلَامَ دِیۡنًا ؕ )

ترجمہ: آج میں نے تمہارا دین کامل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمھارے ليے اسلام کو دین پسند فرمایا۔

6، المائدہ: 3)

اس وقت ان کی خدمت میں ایک یہودی حاضر تھا، اس نے کہا یہ آیت ہم پر نازل ہوتی تو ہم اس دن کو عید بناتے، ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: یہ آیت دو عیدوں کے دن اُتری جمعہ اور عرفہ کے دن یعنی ہمیں اس دن کو عید بنانے کی ضرورت نہیں کہ اللہ پاک نے جس دن یہ آیت اتاری اس دن دوہری عید تھی کہ جمعہ و عرفہ یہ دونوں دن مسلمانوں کے عید کے ہیں اور اس دن یہ دونوں جمع تھے کہ جمعہ کا دن تھا اور نویں ذی الحجہ۔ (جامع الترمذی، حدیث: 3055)

اس روایت سے یومِ عرفہ کی اور بھی خصوصیات پتہ چلتی ہیں ، ایک تو یہ کہ اس دن اللہ پاک نے اپنا دین مکمل فرمانے کا اعلان فرمایا اور دوسرا یہ کہ یہ دن مسلمانوں کے لیے عید کا دن ہے اور اس دن کی ایک اور خصوصیت یہ بھی ہے کہ حج کا رکنِ اعظم وقوف عرفہ وہ بھی اسی دن ادا کیا جاتا ہےتو پھر یہ دن عید کا دن کیوں نہ ہو کہ جب اس کے اتنے فضائل و برکات ہیں۔

تو یہ تھی یوم عرفہ اور ذو الحجہ کے پہلے عشرے کی خصوصیات اور فضائل اور پھر آپ یہ بھی دیکھیے کہ حج جیسی اہم ترین عبادت کے تمام ارکان اسی عشرے کے آخری ایام آٹھویں، نویں اور دسویں تاریخ کو ادا کیے جاتے ہیں ، ایام تشریق کا آغاز بھی اسی عشرے میں ہوجاتا ہے جو کہ کھانے پینے اور اللہ پاک کے ذکر کے دن ہیں اور ان ایام میں ہر نماز باجماعت کے بعد تکبیراتِ تشریق پڑھی جاتی ہے اور رحمتوں اور برکتوں والا یہ عشرہ عید الاضحی کے مبارک دن اختتام پذیر ہوتا ہے جس دن مسلمانانِ عالم اپنی قربانیوں کو اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرنے کی سعادت حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس عشرے کو غفلت میں ہرگز نہ گزاریں ، ان ایام میں روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ رات کو کچھ وقت عبادت کے لیے بھی خاص کریں، ہر برے کام سے بچنے کی کوشش کریں اور اللہ پاک کے حضور دعائیں مانگے اور اپنی بخشش طلب کرے۔

Share this post:

(0) comments

leave a comment